جن پہ تکیہ تھا۔۔۔
اس وقت میری کیا عمر تھی مجھ کو یادنہیں ۔۔۔۔لیکن اتنا یاد ہے
کہ میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا ، اس وقت ہمارے گھر کے آس پاس زیادہ آبادی نہیں
تھی جگہ جگہ لمبی لمبی گھاس اور کاریز یں تھیں اس عمر مےں ہمارا یہی کام تھا سکول
جانا اور اس کے بعد سارا دن گھر مےں۔۔۔ شام کو بچوں کے ساتھ کھیلنے کیلئے اجازت
ملتی تھی،ہمارے والد سخت طبیعت تھے اس لئے گھر سے دور جانے کی اجازت نہیں تھی اس
لئے گھر کے قریب ہی کھیلتے تھے وہ بھی والد کے گھر
آنے سے پہلے پہلے ، اس وقت آج کی طرح ویڈیو گیمز، انٹر نیٹ، موبائل فون نہیں ہوتے
تھے، آﺅٹ ڈور کھیلوں مےں
چھپن چھپائی ، برف پانی ، اسٹاپو وغیرہ اور ان ڈور لڈو ، کیرم بورڈ وغیرہ جیسی ہی
گیمز ہوتی تھیں،خیر یہ بڑے بچوں کے کھیل تھے ہم چھوٹے بچے لڑکیوں کے ساتھ گھر گھر
کھیلا کرتے تھے، ہمارے ایک رشتہ دار تھا (رشتے میں چچالگتاتھے) وہ ہم سے عمر مےں
کافی بڑے تھے وہ بھی ہمارے ساتھ کھیل مےں شریک ہوجاتے ، اس طرح وہ ہم سے کافی گھل
مل گے تھے، اس کے علاوہ اکثر دن کو بھی جب بھی مےں اکیلا ہوتا مجھ کو سائیکل پر
سیر کیلئے لے جاتا تھا، گھر والے بھی اجازت دے دیتے تھے، وہ مجھے کھانے کی چیزیں
بھی لیکر دیتا تھا، اس وجہ سے میں اس سے کافی مانوس ہوگیا تھاوہ مجھ کو چیزیں اور
کھلونے لیکر دیتا اور کہتا کسی کو بتانا نہیں ، چیزیں یہی کھا کر گھر جاﺅ
اس کے علاوہ جب بھی کوئی اکیلی جگہ ہوتی وہ مجھ سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کرنے لگا
تھا، کھبی میرے ہونٹو ں سے چومیاں لیتا کبھی میرے گال سے ، کبھی میرے کہولوں کو
ٹٹولتا ،شروع میں تو میںاس کو منع کرتا لیکن پھر آہستہ آہستہ مےںبھی عادی ہوگیا اس
کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھے گھومانے لے جاتا تھا، چیزیں لیکر دیتا تھاشاہد یہی وجہ
تھی ۔۔۔۔ پھر اس نے انگل بازی بھی شروع کردی اور اکثر کہتا کہ اگر کسی کو بولا تو
میں تم کو گھومانے نہیں لے جاﺅں
گا،شروع شروع میں تو وہ کپڑوں کے اوپر اوپر سے یہ سب کچھ کرتا پھر اس نے شلوار مےں
ہاتھ ڈال کر انگلی کرنا شروع کردی جب میں اس کا بھی عادی ہوگیا تو وہ انگلی کو
تھوک سے گیلی کرکے میری گانڈ مےں گھسانے لگا ، کھبی مجھ کو الٹا لیٹا کر اوپر لیٹ
جاتا کبھی سیدھا لیٹا کر اپنا لنڈ میرے سوراخ پر رگڑتا اور جس دن یہ حرکت کرتا اس
دن کھانے کی چیزیں بھی زیادہ ہوتی تھی اس لئے میں اس کو یہ سب کچھ کرنے دیتا، اور
اس چیز کا فائدہ اٹھانے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتا رہااپنا لنڈ شلوارسے نکلا کر کہتا
اس کی مالش کرو اس کے چومی دو جیسے میں تم سے چومی لیتا ہوں ، میری نونو اپنے میں
منہ میں لیکر چوستا اور مجھ سے اپنا لنڈ چسواتا، وہ اکثر دوپہر کے وقت مجھ سے ملتا
تھا کیونکہ اس وقت گھر والے آرام کررہے ہوتے تھے اس لئے کسی کو پتا بھی نہیں چلتا
اور کوئی اس پر شک بھی کیسے کرسکتا تھارشتہ ہی کچھ ایسا تھا۔۔۔۔ پہلے بار جب اس نے
مجھ کو چودا اس دن گھر کی صفائی ہورہی تھی اور گھر کا سارا سامان صحن مےں جمع تھا
میں ایک کونے چارپائیوں پر کبل ڈال کر گھر بنا کر اکیلا ہی کھیل رہا تھا کہ اتنے
مےں وہ آگیا اس کے پاس چیزیں بھی تھیں اور میرے ساتھ کھیلنے لگا ۔میری نظر اس کے
پاس چیزوں پر تھی وہ بھی سمجھ گیا ۔ کہنے لگا یہ چیزیں میں تمہےں دے سکتا ہوں اگر
میری بات مانو گے تب ۔۔۔۔ میںنے کہا کیا بات مانوں ۔۔۔ اس نے کہا جو میں کہوں تم
وہی کروں گے۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اس نے کہا ۔۔۔میرے لنڈ کو چوسوں ۔۔۔۔ اس نے
شلوار کھول کر لنڈنکالا اور میں چوسنے لگا ، اس نے انگلی تھوک میں گیلی کرکے میری
گانڈمیں انگلی کرنے لگا اس کے بعد اس نے مجھ کو الٹا لیٹا کر میری گانڈ کے کھول کر
لنڈ کو میرے سوراخ کے اوپر رگڑے نے لگا اور کہنے لگا ۔۔۔ ۔تھوڑا سا اندر کرلو
۔۔۔۔میں کہا کہ درد ہورہا ہے ۔۔۔ کہنے لگا کہ چیزیں چاہئے کہ نہیں اگر آج تم نے
میری بات نہ مانی تو میں ناراض ہوجاﺅنگا
۔۔۔بس ایک بار ہی درد ہوگا پھر نہیں ہوگا ۔۔۔دیکھوں ،،، میں تمہارا کتنا خیال
رکھتا ہوں ۔۔۔اور تم میری اتنی بات نہیں مان رہے ہو۔۔۔آرام آرام سے اندر ڈالوں گا۔۔۔میں
نے کہا اچھا ۔۔ ٹھیک ہے، اس نے مجھے کہا میرا پورا لنڈ چوسو۔۔۔۔ میں نے پھر اس کا
لنڈ چوسنے لگا اس نے مجھ کو پھر الٹا لیٹا کر میری گانڈ کے سوراخ میں تھوک لگا کر
اپنا لنڈ میری گانڈ کی سوراخ پر رکھا اور ایک ہاتھ میرے منہ پر رک لیا ۔۔۔اور پھر
ایک جھٹکے سے اپنا لنڈ میرے گانڈ کی سوراخ مےں دبا دیا۔۔۔۔میرے منہ سے ۔۔۔۔وہی
۔۔۔۔۔اُف ۔۔۔اف ۔۔۔کی آواز نکلی لیکن اس نے میرے منہ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مزید
مضبوط کرلی جس کی وجہ سے میری آواز دب کر رہی گئی،مجھے بہت سخت درد ہوتا
تھا۔۔۔۔لنڈ کے اندر جاتے ہی میری پوٹی باہر نکل گئی میں درد سے رونے لگا ۔۔۔۔اس نے
نے جلدی سے لنڈ میری گانڈ سے نکالا اپنی قمیض کے دامن سے میری پوٹی صاف کی اور
مجھے دلاسہ دینے لگا اور چپ کرانے لگا ۔۔۔۔خیر کچھ بعد ابو آگئے اسے دیکھتے ہی وہ
وہا ں سے کسگ گیااور مےں ان کے ڈر سے چپ ہوگیا۔۔۔پھر وہ جب بھی ہمارے گھر آتا میں
امی یا دادی کے پاس چلا جاتا تھا ۔۔ پہلی بار لنڈ اندر جانے کی تکلیف اور درد کی
وجہ سے میں اس سے ملنے سے کترانے لگا ۔۔۔کچھ دن بعد دوپہر کو وہ آیا اور مجھ کہنے
لگا گھومنے جائیں۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔ امی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔ اس نے کہا میں
تمہاری امی سے اجازت لے لیتا ہوں۔۔۔اس نے جاکر امی سے اجازت لی ۔۔۔۔اور مجھ کولیکر
گھر سے باہر آگیا ۔۔۔۔باہر نکل کر اس نے مجھے دس روپے کا نوٹ دیکر کر کہا میرے
کپڑوں مےں جیب نہےں تم اسے اپنے جیب مےں رکھوں واپسی پر دودھ لیکر آنا ہے۔ ۔۔۔ ہم
کچھ دیر ایسے گھومتے رہے پھر اس نے مجھ سے کہا کہ وہ دس روپےمجھے کو دو میں دودھ
لیکر آتا ہوں تم گھر جاﺅ۔۔۔۔ میں نے جب
جیب میں ہاتھ ڈالا تو دس روپے میرے جیب مےں نہےں تھے ۔۔۔ اب وہ مجھ سے تقاضا کرنے
لگا کہ میرے دس روپے دو۔۔۔ نہیں تو میں جاکر تمہارے والد کوبتا دونگا کہ تم نے
میرے پیسے چوری کئے ہیںاور وہ تمہیں خوب مارے گا میں ڈر کر رونے لگا ۔۔۔ جب اس نے
دیکھا کہ میں کافی ڈر گیا ہوں تو کہنے لگا۔۔۔ اگر تم میری بات مانو تو میں کسی کو
نہیں بولو گا۔۔۔ میں نے کہا کیا بات۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔گانڈ دو ۔۔۔ ورنہ میں تمہارے
ابو کو بتادونگا کہ اس نے میرے پیسے چوری کیے ہیں ۔۔۔۔میں نے کہا نہیں درد ہوتا ہے
میں نہیں دونگا۔۔۔ کہنے لگاتمہاری مرضی۔۔۔۔یا میرے پیسے دو یا گانڈ۔۔۔۔ مرتاکیا نہ
کرتا۔۔۔۔ مجبورا مجھ کو اس کی بات ماننا پڑی۔۔۔۔ وہ مجھ کو گھر کے قریب ایک ویران
جگہ تھی وہاں لے گیاوہاں اونچی اونچی گھا س لگی ہوتی تھی اس مےں اگر بڑا انسا ن
بھی اس میں بیٹھ جاتا تو نظر نہیں آتا تھا۔۔۔۔ وہاں جاکر اس نے میری اور اپنی
شلوار اتارایک طرف رکھ دی اور اپنا لنڈ میرے منہ میں دیکھ کرکہنے لگا اس کو چوسو
۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے مجھ لٹا کر میرے اوپرلیٹ گیا اور اپنا لنڈمیری گانڈکے
سوراخ میں گھسانے لگا۔۔۔۔وہ جیسے زورلگا تو مجھے درد ہونے لگتا اور میں چیخنے لگ
جاتا۔۔۔ اس نے میرے پر زور سے ہاتھ رکھا ہوا تھا تاکہ میری چیخیں کوئی سن نہ لے
اور پھر پورے زور سے پورا لنڈ میری گانڈ کی سوراخ میں ڈال دیا۔۔۔ جیسے ہی لنڈ اندر
گیا میری ساری پوٹی باہر نکل گئی۔۔ ۔لیکن جب تک وہ فارغ نہ ہوا جھٹکے لگا تا رہا۔
اس کے بعد اس نے وہی سے گھاس توڑکر میری گانڈ سے پوٹی صاف کی۔۔۔ اور کچھ دیرکے
بعدوہ مجھے گھر لے آیا ۔۔۔۔ پھر تووہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نا کسی بہانے سے مجھے
وہاںلے جاکر میری گانڈ مارتا۔ پہلے پہل تو مجھ کو تکلیف ہوتی تھی پھرمجھ تکلیف کی
بجائے مزا آنے لگا ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی عادت ہونے لگی۔۔۔۔ لیکن اب وہ پہلے
کی طرح میرا خیال نہےں رکھتا تھا اب میں خود اس کے انتظار مےں رہتا تھا کہ کہ آئے
اور میری گانڈ مارے ، کیونکہ جب تک میں گانڈ نہیں مرواتا تھا ایک عجیب سی بے چینی
میں مبتلا رہتا۔۔۔۔لیکن وہ تو نئے نئے شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔۔۔ اور محلے کا
دو تین لڑکوں کو اور بھی پتا چل گیا تھا کہ میں گانڈو ہوں۔۔۔ سلیم ، گلو
دکاندار۔۔۔ رند بکریوں والا ۔۔۔۔اور کافی عرصہ گلوں دکاندار سے میری دوستی رہی جب
تک میں اس محلے میں رہا گلوں ہی سے جسمانی تعلق رہا۔۔۔۔ کیونکہ گلو کے وجہ سے کسی
میں ہمت نہ تھی کہ کوئی مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتا۔۔۔پھر ہم وہاں کراچی چلے آئے ۔۔۔۔
یہ سلسلہ رک سا گیا۔
0 تبصرے