پھیکا پکوان
،نیٹ پر اپنے مطلب کے دوست سرچ کرتا رہتا ہوں ، کبھی کبھار کسی سے
مل لیتا ہوں لیکن مطمئن ہونے کے بعد ، کیونکہ زیادہ طرح لچر لوگ ہوتے ہےں اور وہ
صرف ٹائم پاس کرتے ہےں ،لیکن مجھے آج تک سیریس ہی لوگ ملے ہیں،کیونکہ میں ہر کسی
سے نہیں ملتا جب تک اچھی طرح اطمنان نہ کرلو۔۔۔۔۔اس طرح ایک دوست سے ہیلو ہائے
ہوئی ۔۔۔ سردار خان۔۔۔ نام تھا کافیعرصہ اسے سے چیت ہوتی رہی۔۔۔۔ پھر ہم دنوں نے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیا۔۔۔
اکثر رات کے وقت وہ مجھ کو فون کرتا تھا۔۔۔۔ اور ہر بار ملاقات کیلئےاصرار کرتا۔۔۔
سبی شہر کا رہنے والا تھا۔۔۔ مجھ کو سبی آنے کی بھی دعوت دی تھی لیکن میں دوسرے
شہر کا سفر نہیں کرتا۔۔۔ وہ اکثر ہمارے شھر آتا رہتا تھا۔۔۔ اور جب بھی شہر آتا
مجھ سے ملنے کی درخواست کرتا تھا۔۔۔ لیکن میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ میں اچھی
طرح مطمئن ہونے کے بعد لوگوں سے ملتا ہوں ۔۔۔ وہ اکثر فون پر کہتا کہ رات کو میرے
ساتھ رہو ہوٹل میں ۔۔۔ میں یہ کر لونگا وہ کرلونگا۔۔۔تم ایک بار ملوں میں تمہیں
حیران کردونگا ۔۔۔۔تمہاری ہر ضرورت پوری کرونگا۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آخر کار میںنے
اس سےملاقات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔۔۔ہمارے شہر پہنچنے کے بعد اس نے مجھ کو
اطلاع دی کہ میں فلاں ہوٹل مےں ہوں ۔۔۔مل لو انجوائے کرینگے۔۔۔ اس کے دعوے اور
ہتھیار کا سن سن کر میں بھی اس سے ملنے کو بے تاب تھا۔۔۔ اور کافی عرصہ کی چیٹ اور
فون کال کی وجہ سے میں نے اندازہ کرلیا تھا کہ سیریس انسان ہے ۔۔۔ میں اسے دیکھنے
کیلئے کہ وہ واقعی جیسے دعوے کررہا ہے ایسا ہی ہے یا صرف خالی خولی دعوے ہیکررہا ہے۔۔۔۔
میں مطلوبہ ہوٹل میں پہنچا۔۔۔۔(قصر ناز) تیسرے فلور میں اوپرچڑھنے کے بعد مطلوبہ
کمرہ اسی کاتھا ۔۔۔۔ میں نے دروازہ پر دستگ دی تو وہ میرے ہی انتظا ر میں تھا۔۔۔۔
تقریب دوپہر کا وقت تھا۔۔۔۔ وہ اٹھ کر مجھ سے گلے ملا اور مجھ کو زور سے
دبایا۔۔۔بات چیت کے دوران وہ مجھ کو ملسل دیکھ رہا تھا کہنے لگا اگر مجھ کو پتا چل
جاتا کہ تم سمپل ہو تو میں تم سے نہ ملتا ۔۔۔میں جب یہ بات سنی تو اس سے اجازت
چاہی ۔۔۔ اور جانے کے اٹھا اور دروازسے کی طرف بڑھا۔۔۔۔ مجھے غصہ اس بات کا تھا کہ
میں اس کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں سمپل ہوں کیوٹ نہیں ہونے اس کے باوجود وہ
مسلسل مجھ سے ملنے کی درخواست کررہا تھا اور آج نخرے کررہا تھا ۔۔۔۔ مجھ کو اٹھا
دیکھ کر اس نے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ کو اپنے پاس بیٹھا کر کہنے لگا ۔۔۔۔
یار تم تو ناراض ہوگئے ہو۔۔۔ میں مزاق کررہا تھا۔۔۔ اور پھر اس نے ادھر ادھر کی
باتیں شروع کردیں۔۔۔ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا۔۔۔ اور وعدہ کرنے لگا کہ تمہارے
روزگار کیلئے میں سبی جاکر ضرور کوئی نہ کوئی بندوست کرونگا۔۔۔ فلاں منسٹر میرا
کزن ہے ۔۔۔ فلاں ایم پی اے میرا دوست ہے وغیرہ وغیرہ اس دوران میں چائے آگئی اور
ہم دونوں چائے پینے لگے ۔۔۔ چائے پینے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے
لگے۔۔۔۔ وہ مجھ کو سکس کی دعوت دینے مےں ہچکچا رہا تھا میں نے ہی اس کو دعوت دی
۔۔۔ سردار خان اٹھا۔۔۔ کمرے کا دروازہ لاک کیا اور آکر دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
اور شلوار کا ناڑہ کھول کر ۔۔۔۔ لنڈ باہر نکالا۔۔۔۔ واقعی اس کا لنڈ کافی بڑا تھا
تقریبانو انچ کے قریب تھا ۔۔۔ میں اس کے قریب آیا ۔۔۔ اپنی شلوار اتاری اور اس کے
بیڈ پر اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔ وہ بھی میرے ساتھ لیٹ گیا اور اپنا ہاتھ میری گانڈ
پر پھیرنے لگا۔۔۔ کبھی کبھی مجھ کو انگلی بھی کرتا اور مےں اس کے لنڈ کو اپنے ہاتھ
مےں لیکر ٹٹولنے لگا اور اس کے ٹٹوں کو مسلنے لگا ۔۔۔ اس کے بعد میں نے اس کا لنڈ
اپنے منہ میں لے لیا اور اس کی
Suking کرنے لگا۔۔۔سردار کو اس بات کی توقع نہیں تھی۔۔۔۔
میں اپنے زبان اس کے لنڈ کے ٹوپے پر پھیرنے لگا۔۔۔ اسکے لنڈ کے سوراخ سے لیس دار
ماہ باہر نکل رہا تھا اور اسکو زبان سے چاٹ لیتا۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کے ٹوپے کو
زبان سے Liking کرتا رہا ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے لنڈ کے ٹوپے کو منہ میں
لیکر اس پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔اس کے منہ سے اُس ،ہو کی ہلکی ہلکی آواز نکل رہی
تھیں۔۔۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔۔ ابھی تک تو میں نے پورا لینڈ بھی منہ میں نہیں لیا تھا
صرف ٹوپے کو چوس رہا تھا کہ وہ۔۔۔۔ڈسچارج ہونے لگا تھا۔۔۔۔ اور گرم گرم سپرم کے
قطرے میرے منہ میں۔۔۔۔جیسے کسی نے انڈا توڑ کر میرے منہ میں انڈیل دیا ہو ۔۔۔ گرم
گرم منی سے میرا منہ بھر گیا ۔۔۔۔میں نے جلدی سے منہ سے لنڈ نکلا ۔۔۔۔ منی قطروں
کی صورت مےں بستر پر گرنے لگی۔۔۔۔سارا مزہ چوپٹ ہوگیا تھا۔۔۔سردار خان کا نو انچ
کا لنڈ اب بچے کی نونوکی طرح لگ رہا تھا۔۔۔۔ساری سختی ختم ہوچکی تھی۔۔۔ کچھ دیر
پہلے ہڈی کی طرح سخت لنڈ اب ربڑ کی طرح نرم ہوگیا تھا۔۔۔سردار تو آدھے گھنٹے کا
کہہ رہا تھا لیکن یہاں تو دو منٹ مےں سردار خان کی ہوا نکل گئی تھی۔۔۔۔جو کچھ سوچ
کر سردار خان سے ملنے آیا تھا۔۔۔۔ وہ سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا تھا۔۔۔۔سردار کی مستی
بھی ختم ہوچکی تھی۔۔۔ لیکن میں پورا مزہ لینے کے موڈ مےں تھا۔۔۔ بڑی دیر تک سردار
خان کے نونو(لنڈ) سے کھیلتا رہا چوستا رہا۔۔۔ آخر کار ۔۔۔۔ سردار خان کے نونو(لنڈ)
مےں پھر سختی آنا شروع ہوئی اور کچھ دیر بعد اس کے لنڈ دوبارہ سر اٹھائے کھڑا تھا
۔۔۔ لیکن وہ پہلے والی سختی اب اس میں نہیں تھی۔۔۔۔لنڈ چوس چوس کر میری دلچسپی اب
بوریت مےں تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔بس اب میں چدواناچاہتا تھا۔۔۔۔میںنے لینڈ
کو چوس کر خوب گیلا کیا ۔۔۔ اور گھوڑی بن گیا اور سردار خان سے کہنے لگا کہ
ڈالواور جھٹکے لگاﺅ ۔۔۔۔جب
بھی سردار میری گانڈ کے سوراخ میں لنڈ ڈالنے کی کوشش کرتا وہ نرم ہونے کی وجہ سے
ٹیڑھا ہوجاتا ۔۔۔ اور پھر وہی ہوا ۔۔۔۔ یعنی سردار خان صاحب میری گانڈ کے اوپر ہی
دوبارہ ڈسچارج ہوگئے اور اس کے لنڈ سے منی کی ایک دھار میرے گانڈ کے سوراخ پر گرنے
لگی ۔۔۔۔ سردار بے سدھ ہو کر میرے اوپر ہی لیٹ گیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایسی طرح وہ پڑا
رہا ۔۔۔ ۔پھر ہم ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے ۔۔۔ میں اٹھا باتھ روم گیا اپنے جسم پر
لگے اس کی منی کو صاف کیا ۔۔۔آکر کپڑے پہنے ۔۔۔۔ سردار ویسے ہی بیڈ پر لیٹا ہوا
تھا ۔۔۔۔میں بھی بے زار ہوگیا تھا ۔۔۔ اس سے اجازت لی اور ہوٹل سے نکل آیا۔۔۔۔ اس
کے بعد سردار خان سے نہ دوبارہ ملا اور نہ ہی اس بے شرم نے مجھ کو دوبارہ فون
کیا۔۔ ۔ایک دوبار میں نے ہی اس کو
کرکے خوب عزت دی۔۔۔۔مطلب آپ سمجھ گئے ہونگے۔۔۔ سچ
کہتے ہےں اونچی دکان پھیکا پکوان۔۔۔ اور آج یہ مثل بالکل ثابت ہوئی تھی۔۔۔۔
0 تبصرے